Top New beautiful stories in urdu

beautiful stories in urdu
beautiful stories in urdu

beautiful stories in urdu

گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں ۔ رقیہ بیگم نے اپنی دونوں بیٹیوں کو جو فیصل آباد اور ملتان میں بیاہی ہوئی تھیں، اپنے ہاں ایبٹ آباد آنے کی دعوت دی۔ نجمہ اور ناجیہ دونوں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی اماں جان کے پاس ملنے چلی آئیں۔ یہ جولائی کا آخری ہفتہ تھا مگر ایبٹ آباد کا موسم بہت خنک اور خوش گوار تھا۔ خوبانی، آلو بخارا اور آڑو کے پودے پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ نجمہ بیٹی ملتان سے آموں کی سوغات لائی ہوئی تھیں۔ رقیہ بیگم کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی بہت خوش تھے اور موسم اور پھلوں سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔

رات ہوئی تو سب بچے اپنی دادی اماں اور نانی جان کے پاس اکٹھے ہوئے اور کوئی کہانی سنانے کا تقاضا کرنے لگے۔ رقیہ بیگم نے چائے کی آخری چسکی لی، سب بچوں کو پیار کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا: 'بچو! آج میں تمھیں پاکستان کی کہانی سناؤں گی ۔" نیلوفر، روزی، ٹیپو، ذکی اور دانش نے ایک ساتھ اماں جان کے موضوع کی تائید کی۔ نیلوفر نے بات بڑھائے ہوئے کہا: اماں جان! یہ تو خوب رہے گا، کیوں کہ اس سال تو ہم

پاکستان کی ڈائمنڈ جو بلی بھی منارہے ہیں۔ چھٹیوں سے پہلے ہماری کلاس ٹیچر نے بھی اسمبلی میں سب بچوں کو ڈائمنڈ جوبی کی تقریبات میں حصہ لینے کے لیے کہا تھا ۔" ننھے دانش نے اپنی توتلی زبان میں حیرت سے پوچھا: یہ ڈائمنڈ جوبلی کیا ہے؟“ ماشاء اللہ، اس ملک کو بنے ہوئے اب پچھتر برس ہو چکے ہیں ۔ لیکن ملک بننے کی داستان ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے ۔ دادی اماں نے کہا۔ بھٹی ، اب سب خاموش ہو جاؤ تا کہ اماں جان ملک کی کہانی سناسکیں ۔ ٹیپو نے سب سے درخواست کی۔ رقیہ بیگم نے عینک کو ناک پر سیدھا کیا، ہلکے نیلے دوپٹے کو سفید بالوں پر درست کیا۔ ہلکا سا کھانس کر گلا صاف کیا اور کہنے لگیں:

یہ ایک لمبی کہانی ہے، اس کہانی میں کئی کہانیاں اور ہزاروں واقعات سمٹے ہوئے ہیں ۔ لیکن !یہ ہے بہت دلچسپ کہانی ۔ تمام بچے اب پوری توجہ سے اماں جان کی بات سن رہے تھے۔ کھتر سال پہلے یہ ملک پاکستان براعظم ایشیا کے ایک بڑے ملک ہندوستان کا حصہ تھا، جسے تاریخ کی کتابوں میں برصغیر بھی لکھا جاتا ہے۔ عرب جہاز ران اس ملک سے صدیوں پہلے تجارت کی غرض سے وابستہ تھے اور اس کے جنوبی ساحلوں پر ان کی کچھ بستیاں بھی آباد ہو گئی تھیں ۔“ ظہور اسلام کے بعد مسلمان عرت باجروں نے ان علاقوں میں اسلام کی دعوت پیش کی۔ 711ء میں راجا داہر سندھ کا حکم ران تھا۔ اس نے ایک مسلمان بحری قافلے پر حملہ کیا اور اس کی خواتین کو قیدی بنا لیا۔ عراق کے مسلمان گورنر

حجاج بن یوسف نے ایک نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم کو ایک لشکر کے ساتھ اس راجا کے ظلم کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا ۔" یہ مسلمانوں کا ہندوستان میں پہلا لشکر تھا۔ ہماری کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے۔ بینش نے نانی اماں کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”ہاں بھئی ہاں ! یہ پہلا لشکر اپنے مقصد میں کام یاب ہوا اور ہندوستان میں مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی۔ یہ ایسی بابرکت اسلامی حکومت تھی کہ پھر اس کے بعد ایک ہزار سال تک اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت قائم رہی۔ غزنوی ، غوری، تغلق اور مغل بادشاہوں نے اس ملک کو بہت ترقی دی۔ اسلام کی دعوت یہاں خوب پھیلی۔ مسلمانوں کی تہذیب، ثقافت اور معاشرت کو فروغ نصیب ہوا۔ کروڑوں انسانوں کو دین اسلام کی نعمت نصیب ہوئی ۔“ اماں جان! ایک ہزار سال بعد پھر کیا ہوا؟‘ دانش نے اماں کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

دانش ! یہ تم نے بہت درد ناک بات پوچھی ہے۔ برصغیر میں جب مغل بادشاہوں کی حکومت قائم ہوئی تو جہانگیر کے عہد میں سات سمندر پار سے کچھ انگریزوں کے بیڑے تجارت کی غرض سے ہمارے ملک میں داخل ہوئے۔“ یہ تاجر برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی تجارت ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے تھی ۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے تک انہوں نے تجارت کے رنگ میں ملک کی سیاست اور وسائل پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلطان ٹیپو نے ان کے خلاف بہادری سے جنگ لڑکی لیکن وہ اپنوں کی غداری کی وجہ سے گیدڑ کی سوسالہ زندگی کی بجائے شیر کی ایک دن کی زندگی گزار کر شہید ہو گئے ۔ یہ کہتے ہوئے اماں جان کا لہجہ

بہت ہی گلو گیر ہو گیا۔ بس پھر کیا ۔ مغلوں کے زوال کے بعد آزادی کی بہت سی تحریکیں اٹھیں ۔ اسلام آزادی کا علم بردار ہے اور مسلمان غلامی سے کبھی مفاہمت نہیں کر سکتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا کہ آزادی کی تحریکیں چاروں جانب سے اٹھنے لگیں۔ ان میں سے تحریک مجاہدین“ سب سے بڑی اور منظم تحریک تھی ۔ اس تحریک کے دونوں راہ نما سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل 1831ء میں بالا کوٹ کے ایک معرکے میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے جہاد اور قربانی کی ایک روشن مثال چھوڑ گئے ۔“ ”اماں جان ، یہ وہی بالا کوٹ تو نہیں جو ایبٹ آباد سے آزاد کشمیر کو جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے اور جو دریا کے کنارے واقع ہے۔“ ”ہاں بیٹا ٹیپو ! یہ وہی شہر ہے، جہاں ان دونوں عظیم شہیدوں کی آخری آرام گاہیں بھی موجود ہیں۔ تحریک مجاہدین کے ان شہیدوں کے خون نے تحریک آزادی کی راہ کو اور بھی روشن کر دیا۔ ابھی بالا کوٹ کے معرکے کو سو سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ 1857 ء میں دہلی میں جنگ آزادی شروع ہو گئی۔

انگریزوں نے اسے غدر کا نام دیا مگر اس میں ناکامی کے باوجود مسلمانوں میں جذبہ حریت بڑھتا چلا گیا۔ علماء نے بڑی بڑی درس گاہیں قائم کر کے اسلامی جذبات کی پرورش کی۔ سر سید احمد خاں نے مدرستہ العلوم علی گڑھ کے ذریعے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آگاہ کیا۔ آگے چل کر یہ درس گاہ ایک مسلم یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گئی اور اس کے طلبہ آزادی کا ہر اول دستہ ثابت ہوئے ۔"

اماں جان! آخر اس ملک میں ہندو بھی تو رہے تھے، انگریزی حکومت کے خلاف ان کا رویہ کیا تھا؟" چھوٹے ارسلان نے پہلی بار سنجیدگی سے ایک سوال کیا۔ خوب! آپ کے سوال نے بھی کیا کیا یاد دلا دیا، جیتے رہو بیٹے ، تم نے بہت ہی اچھا سوال کیا ۔“ پھر اماں نے دھیمے لہجے میں کہنا شروع کیا۔ ہندو بنیا شروع میں تو انگریزوں کے اقتدار سے بہت خوش تھا کیوں کہ مسلمان کے پاس اقتدار باقی نہیں رہا تھا۔ اس نے ایک انتظام کے تحت انگریزی غلبے کو قبول کیا ۔ مگر جلد ہی اسے بھی اس بات کا احساس ہو گیا کہ اس طرح سے تو انگریز ہمیشہ کے لیے ہندوستان پر قابض ہو جائے گا اور اس ملک کو جو سونے کی چڑیا ہے، کے ذرائع اور وسائل کی لوٹ مار جاری رکھے گا۔ بس اس احساس کے نتیجے میں ہندوؤں نے ابتداء میں کچھ وقت مسلمانوں کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد میں شرکت کی۔ اور ہاں میں تمہیں بتاتی چلوں کہ. 1885ء میں انڈین نیشنل کانگرس بن گئی جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے راہ نما شریک ہوئے مگر جلد ہی مسلمانوں کا علماء اور سیاسی راہ نماؤں نے یہ محسوس کر لیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے عقیدہ اور مفادات بالکل الگ ہیں۔ اس احساس کے تحت مسلمانوں کے راہ نما 1906ء میں ڈھا کہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ ہندوؤں کے مسلسل متعصبانہ رویے کے باعث مسلمان یہ سمجھ چکے تھے کہ برصغیر میں ہندو مسلم اب ایک ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتے ۔ اس فکر نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ راستہ طے کر دیا۔" اماں جان! یہ تو آپ نے بہت گہری اور اہم باتیں. بتائی ہیں ۔" نفسے ارسلان نے ایک مرتبہ پھر اپنے اشتیاق کا اظہار کیا۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا؟" بتاتی ہوں، میرے بچو، بتاتی ہوں۔ ذرا حو صلے سے آزادی کی اس داستان کو سنو کہ ہمارے بعد تم ہی ان جذبوں کے وارث ہو گے۔" آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے برصغیر میں دو بہت ہی عظیم اور مخلص راہ نما عطا کیے۔ قائد اعظم محمد علی جنائی اور علامہ محمد اقبال" علامہ محمد اقبال نے 1930ء کو الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجتماع میں ، اپنے صدارتی خطبہ میں واضح طور پر ہندوستان میں ایک آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ کیا اور اس نئی ریاست کی ضرورت ، اہمیت اور حدود پر روشنی ڈالی۔ بس پھر کیا تھا۔ آزادی کے متوالوں کو ایک روشن راستہ مل گیا۔ اس کے دس سال بعد 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں ایک بڑے میدان میں مسلم لیگ کا ایک فیصلہ کن اجلاس ہوا جس میں ایک الگ وطن کی قرار داد منظور ہوئی۔ علامہ اقبال کا خواب، قائد اعظم کی قیادت میں اب ایک واضح منزل بن گیا۔". اماں جان ! یہ تو بہت دل چسپ اور طویل جدوجہد ہے۔ اس کا مقصد تو اس سے بھی عظیم ہوگا۔ بینش نے بہت جذباتی انداز میں سوال کیا۔ رقیه بیگم آزادی کی اس جدو جہد اور اس کی اہمیت کو بیان کرتے کرتے کچھ تھک سی گئی تھیں۔ ان کی نظروں کے سامنے دیلی کی جامع مسجد ، پھاٹک جبش خاں، کوچہ چیلان اور کوچہ بلی ماراں کے وہ سب منظر ایک ایک کر کے گھوم گئے جن میں ان کا بچپن گزرا تھا۔ رقیہ بیگم نے ایک لمبی سانس لی اور بچوں کے. اصرار پر یوں گویا ہوئیں۔ پیارے بچو! ہمارا دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ جہاں عقیدہ اور عبادات کی تعلیم دیتا ہے وہاں دین کے مطابق ایک معاشرہ اور ماحول بھی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس دین کے خاص تقاضے ہیں جو غلامی میں کبھی ادا نہیں ہو سکتے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے پیغمبر نے ملکہ کو چھوڑ کر مدینہ کے لیے ہجرت اختیار نہ کرتے ۔ وہ مقاصد جو مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانے کے تھے بالکل وہی ان سب مسلمانوں کے بھی تھے جو آزادی کی اس جدو جہد میں شریک تھے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انہیں ایک ایسی آزاد اسلامی مملکت نصیب ہوگی جس کا آئین، قانون، عدالتیں، بنک ، منڈیاں ، درس گاہیں، ریڈیو اور ٹیلی وژن سب اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلے ہوں گے۔ اور وہ ایک آزاد اسلامی ملک کے شہری بن کر اسلام کی سربلندی کے لیے کام کر سکیں گے ۔“ اماں جان ! یہ تو بہت ہی عظیم مقصد ہے، اس کے لیے ایک جان تو کیا ، کئی جانیں بھی قربان کرنا پڑیں تو خسارے کا سودا نہیں ۔ ٹیپو نے بہت جذباتی لہجے میں کہا۔

جیتے رہو میرے بیٹے ! جیتے رہو، اللہ تعالیٰ تمھارے جذبوں کو سلامت رکھے۔ اور پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ہاں کچھ ایسے ہی جذبات تھے کہ قائد اعظم کی قیادت میں اس ملت نے سات سال کی مختصر مدت میں آزادی کا سفر طے کر لیا اور 14 اگست 1947ء کی صبح پوری قوم نے آزادی کی نعمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔“ اماں جان! ہمارے کلاس ٹیچر فاروقی صاحب تو کہتے ہیں کہ آزادی کے یہ عظیم مقاصد ابھی تک ادھورے ہیں ۔ ٹیپو. نے کہا۔ رقیہ بیگم نے پھر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: آزادی کے مقاصد تو بلاشبہ پورے ہوئے۔ سب سے بڑا اسلامی ملک دنیا کے نقشے پر وجود میں آگیا لیکن کچھ خود غرض لوگوں نے اپنی اغراض کے نتیجے میں اس ملک کو دو ٹکڑے کر دیا۔ ہمیں آزادی کی حفاظت کے لیے ابھی بہت سی کوششیں کرتا ہیں۔“ اماں جان! آپ صاف صاف بتائیے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کوششیں کر سکتے ہیں؟ سب بچوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔ رقیہ بیگم کی آنکھوں میں امید کے آنسو تیر گئے ۔ ان کے لہجے میں پھر ایک توانائی پیدا ہوئی اور انہوں نے بہت محبت بھرے لہجے میں کہا: ” میرے بچو! اس ملک کے ان عظیم مقاصد کی تکمیل اور آزادی کی حفاظت کے لیے ہمیں اسلامی کردار اپنا نا ہوگا علم کی شمعیں روشن کرنا ہوں گی تا کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ دنیا سے آگے نکل جائیں، ہمیں سادگی اختیار کرنا ہوگی تا کہ ہم قرض کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔

ہمیں اپنی تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو نظریہ پاکستان کے مطابق بنانا ہوگا تا کہ سچا اسلامی معاشرہ قائم ہو سکے اور اللہ ہم سے خوش ہو سکے۔ ہم نے آزادی کے ان تقاضوں کو فراموش تو نہیں کیا لیکن کبھی کبھی ان سے فاصل ہو جاتے ہیں۔ اماں جان! پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے اس عظیم موقع پر وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان تقاضوں سے ان شاء اللہ کبھی غافل نہیں ہوں گے ۔ سب بچوں نے ایک ساتھ عہد کیا۔ یہ سنتے ہی رقیہ بیگم کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے چراغ جگ مگا اٹھے ۔

Post a Comment

0 Comments

Copyright (c) 2019 husband wife love All Right Reseved