urdu fantasy novels stories

 

urdu fantasy novels
urdu fantasy novels
urdu fantasy novels

جیسے ہی سلیمان نے دروازہ کھولا ، سامنے ان کا دوست اور کزن قاسم بیگ کھڑا تھا۔ قاسم بیگ پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ قاسم کو اپنے سامنے دیکھ کر سلیمان کی باچھیں کھل گئیں ۔ تم آج کیسے راستہ بھول گئے ؟“ سلیمان نے قاسم سے گلہ کیا اور اسے اندر لے آئے ۔ بس یار! کیا بتاؤں؟... یہ پولیس کی نوکری ایسی ہی ہوتی ہے۔ ساری زندگی مجرموں کو پکڑنے میں گزر جاتی ہے

اور دوست احباب سے ملنے کا وقت ہی نہیں ملتا، بدلے میں تنخواہ کے نام پر کیا ملتا ہے تم تو جانتے ہی ہو۔" قاسم نے مسکرا کر کہا اور بوبی اور شامی کو پیار کرنے لگا۔ سلیمان ایک عجیب تذبذب کا شکار ہو گئے ۔ کیا انھیں محمود اعوان والی بات قاسم کو بتانی چاہیے؟ وہ جانتے تھے کہ اس سلسلے میں پولیس ان کی مدد نہیں کرئے گی۔ اسی لیے وہ پہلے بھی قاسم کے پاس نہیں گئے۔ لیکن اب اتفاق سے قاسم آ گیا ہے، شاید یہ اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ ہے۔ وہ سوچنے لگے۔ قاسم نے یہ بات

محسوس کی تو سلیمان کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے پوچھنے لگا۔ سلیمان صاحب! کن سوچوں میں کھوئے ہوئے ہیں؟" قاسم کی بات پر سلیمان نے بوبی اور شامی کی طرف دیکھا۔ بوبی سمجھ گیا کہ اس کے والد کسی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ بوبی، سلیمان کے قریب آیا اور سرگوشی کرتے ہوئے سلیمان سے کہنے لگا۔ ابو! قاسم انکل پر اعتماد کرنا ہی ہوگا۔ ورنہ ہم اکیلے یہ جنگ نہیں لڑسکیں گے۔ سلیمان بھی سمجھ گئے۔ قاسم ! کیا میں تم پر اعتماد کر سکتا ہوں؟“ سلیمان نے قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ " کیا ہوا؟ ایسی کیا خاص بات ہے؟" قاسم نے حیرت زدہ انداز میں پوچھا۔ کچھ دیر سلیمان ، قاسم کی طرف دیکھتے رہے، پھر ایک سرد آہ بھری اور بولے:

در کل جنگل میں ایک لاش ملی تھی۔ مرنے والے کا نام ملک محمود اعوان تھا تم جانتے ہو؟ سلیمان کی بات پر قاسم نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ہاں جانتا ہوں ... ہمارے ہی تھانے کا کیس ہے۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ اچھا سمجھا تمہیں اپنی اخبار کے لئے آرٹیکل لکھنا ہوگا۔ قاسم نے مسکراتے ہوئے اندازہ لگایا۔ نہیں ! یہ بات نہیں ہے۔ سلیمان نے قاسم کا خیال رد کیا۔ تو پھر کیا بات ہے؟ تمہارا محمود سے کیا تعلق؟ کیا وہ تمہارا دوست تھا؟ قاسم نے کئی سوال ایک ساتھ پوچھ ڈالے۔

محمود کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔ بلکہ اسے قتل کیا گیا اور قتل کو حادثے کا رنگ دینے کے لیے لاش جنگل میں پھینک دی گئی۔ سلیمان کی بات پر قاسم حیران ہو گیا۔ یہ سب تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ تمہارے پاس اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے ؟ " قاسم کے پوچھنے پر سلیمان اپنی کرسی سے اٹھے اور بیڈ روم کی طرف بڑھ گئے ۔ تمہارے ابو کیوں چلے گئے؟" قاسم حیران ہو کر بوبی سے پوچھنے لگا ۔ ثبوت لینے گئے ہیں۔ ابھی آجائیں گے ۔ بوبی نے جواب دیا۔ اسی وقت سلیمان کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک سرخ جلد والی ڈائری اور ایک زرد لفافہ تھا۔

محمود اعوان کو رانا شماد کے بیٹے رانا ارشاد نے قتل کیا ہے اور یہ ہے ثبوت ۔ " سلیمان نے تمام تصاویر لفافے سے نکال کر میز پر ایسے پھیلا دیں جیسے تاش کے پتے پھیلائے جاتے ہیں ۔ قاسم ان تصاویر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ باری باری کبھی تصاویر کو یکھنے کے بعد اس نے سر اٹھایا اور پوچھا: یہ یہ تمہیں کہاں سے ملیں ؟" و بس حادثاتی طور پر حاصل ہو گئیں۔ میں شعیب کی تصاویر بنا رہا تھا۔ بیک گراؤنڈ میں یہ منظر بھی عکس بند ہو گیا ۔" تم مجھے ساری تفصیل بتاؤ، پھر ہی میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں گا ۔ اس کے بعد سلیمان نے قاسم کو سب تفصیل بتا دی۔ شمائلہ سب کے لیے چائے بنالائی۔ سلیمان کی بات سننے کے بعد قاسم ان کی طرف دیکھ کر بتانے لگا: رانا ارشاد غیر قانونی اسلحہ کی خرید وفروخت کر رہا ہے

اور دہشت گرد تنظیموں کا سہولت کار ہے۔ پولیس میں کبھی یہ بات جانتے ہیں، لیکن سب کو پیسہ کھلا کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ محمود اعوان کو اس بات کی بھنک لگ گئی اور اسی وجہ سے وہ مارا گیا ۔ " قاسم نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا ۔ اس کا مطلب ہے کہ تم محمود اعوان کے قتل کے بارے میں پہلے سے ہی جانتے تھے؟ سلیمان نے قاسم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ” ہاں ! ایسا ہی ہے۔ لیکن میں مجبور ہوں، مجھے اپنے اعلیٰ افسران کی بات ہی مانی پڑتی ہے۔ یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو ، اسی لیے تمہاری بات سننے کے بعد پہلے میں انجان بنا رہا۔ قاسم نے اعتراف کیا۔ میں یہ سب جانتا ہوں، اسی لیے تمہارے پاس نہیں گیا تھا۔ اب تم خود چل کر یہاں آگئے ، اسی لیے تمہارے سامنے سارے حقائق رکھے ۔ سلیمان نے قاسم سے کہا۔ رانا ارشاد یہ غیر قانونی دھندہ بہت عرصہ سے کر رہا ہے۔ جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا ہے۔“

محمود اعوان کی طرح بوبی نے بات مکمل کی۔ قاسم نے بوبی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ہاں ! .... اور محمود اعوان کوئی پہلا شکار نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔‘ قاسم نے بتایا۔ سوال یہ ہے کہ اب ہم کیا کریں؟“ سلیمان نے قاسم سے پوچھا۔ دیکھو سلیمان ! میری طرح تم بھی بچوں والے ہو۔ تمہارے تو صرف دو بیٹے ہیں۔ میری تو بیٹیاں بھی ہیں ۔ تم ان


جھمیلوں میں نہ ہی پڑو تو اچھا ہے۔ میں تمہاری بات مان کر اگر اس کیس کی تفتیش کرنا بھی چاہوں گا تو میرے اعلیٰ افسران مجھے روک دیں گے اور کسی دور دراز علاقے میں تبادلہ کروا دیں گے۔ میں اپنی فیملی نے کر کہاں جاؤں گا۔ یہ پورا ایک مسلم ہے اور اس سسٹم سے ٹکرانا تمہارے جیسے کے بس کی بات نہیں۔ اسی لیے میں یہی کہوں گا کہ یہ سب بھول جاؤ اور اپنی فیملی کا خیال کرد قاسم خاموش ہو گیا۔ سلیمان اس کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے اور پھر چند لمحوں بعد پوچھا: یہ ایک پولیس سب انسپکٹر کا بیان ہے؟ ہاں ! یہ ایک مجبور پولیس سب انسپکٹر کا بیان ہے، جو اس سٹم سے نہیں ٹکراسکتا۔ قاسم نے اپنی بات ختم کی اور چائے کا کپ اٹھا کر گھونٹ بھرنے لگا۔ تو میں اپنی اولا د کو یہ سکھاؤں کہ ظالم کا ظلم برداشت کرو اور بس اپنے گھر اپنی فیملی کا سوچو۔ مجرم جرم کرتے جائیں ، لوگوں کی جان لیتے جائیں اور ہم بس تماشہ دیکھیں؟ یہی اس دنیا کا اصول ہے۔ قاسم نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

تو تم نے پولیس کی نوکری صرف چھوٹے موٹے چور اچکوں کو پکڑنے کے لیے کی؟ سلیمان نے پوچھا۔ قاسم کافی دیر تک ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا۔ وہ عجیب تذبذب کا شکار ہو چکا تھا۔ و ٹھیک ہے میں تمہاری مدد کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ اب جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔“ قاسم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ یہ ہوئی نا بات" سلیمان نے قاسم کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ان کی دیکھا دیکھی بوبی اور شامی نے

ڈاکٹر فوزیہ مجھے اس گولی نے الجھن میں ڈالا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عماد نے ڈھانچے کے اس سے عملی گولی ہاتھ میں پکڑ کر فوزیہ سے کہا۔ وہ اس وقت کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھی ہوئی ڈھانچے کی فیس ری کنسٹرکشن کر رہی تھی ۔ اس نے ایک نظر اٹھا کر ڈاکٹر عماد کی طرف دیکھا اور بالوں کی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے بولی: "سر! ایسی کیا الجھن ہے؟ نائن ایم ایم کی گولی ہے، جو اکثر پستولوں میں ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں تو یہ کارتوس بہت عام ہے۔" نہیں ! اس گولی میں کچھ خاص بات ہے۔ اس کی شکل تھوڑی مختلف ہے اور بنانے والی کمپنی کا لوگو بھی ہمارے ملک کی کسی بھی کمپنی کا نہیں ہے ۔“ سرا یہ چالیس بیالیس سال پہلے کی بات ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کمپنی اب بند ہوگئی ہو ۔ فوزیہ نے اپنا خیال پیش کیا۔

نہیں ! ہمارا ملک آزاد ہونے کے بعد سے اب تک جتنی بھی اسلحہ بنانے والی کمپنیاں ہیں، میں نے ان سب کمپنیوں کی فہرست اچھی طرح دیکھ لی ہے۔ اس نام کی کسی بھی کمپنی کا اندراج نہیں ہے۔ یہ یقینا کوئی بیرون ملک کی کمپنی ہے۔ تو اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے؟ ہو سکتا ہے یہ گولیاں برآمد کی گئی ہوں ۔ فوزیہ نے جواب دیا۔ ہوسکتا ہے. میں یہی دیکھنا چاہ رہا ہوں کہ یہ لوگو کس کمپنی کا ہے اور یہ گولیاں کہاں سے برآمد کی گئیں ۔ ڈاکٹر عماد کی نظر اب بھی گولی پر تھی

کیا اس بات کا تعلق ، اس قتل سے ہو سکتا ہے؟" کچھ کہ نہیں سکتا لیکن کامیاب سراغ رساں بنے کے لیے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں سال سے میں فرانزک سائنس سے وابسطہ ہوں ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جو چیز نظر انداز کی، وہی کام کی ثابت ہوئی اور اسی سے کیس حل ہوا۔ ڈاکٹر عماد نے ڈاکٹر فوزیہ کو بتایا۔ اسی لیے تو آپ تمام شواہد کا اتنی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہ مسکرادی۔ یہی سمجھ لو... اچھا تمہارا کام کہاں تک پہنچا ؟ ڈھانچے کا چہرہ بنا؟“ شاید ایک گھنٹا اور لگے گا۔ میں کوشش کر رہی ہوں۔ آنکھیں کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی ہیں۔ فوریہ نے اسکرین کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ٹھیک ہے تم اپنا کام کرو۔ میں اس گولی کا معاملہ حل کرتا ہوں ۔ اس کے بعد دونوں اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ ایک گھنٹے کے بعد فوزیہ کی آواز سنائی دی۔

ی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر فوزیہ کی حیرت میں ڈوبی آواز سن کر ڈاکٹر عماد قریشی چونک گئے۔ فوزیہ کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ لگ کیا ہوا. خیریت تو ہے؟“ ڈاکٹر عماد اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے پوچھنے لگے اور فوزیہ کے پاس آ گئے. وس سرا یہ دیکھیں میں نے چہرہ بنا لیا ہے اور آپ دیکھیں یہ کس کا چہرہ ہے۔ فوزیہ کی آنکھوں میں عجیب کی حیرت تھی ۔ ڈاکٹر عماد نے اسکرین پر نظر ڈالی اور فوزیہ کے بنائے چہرے کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔

آر یوشیور؟ کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ مرنے والے کی یہی شکل تھی ؟ جی سرا مجھے سو فی صدیقین ہے۔ تقریباً دس سال سے میں یہ کام کر رہی ہوں ۔ آج تک کبھی بھی کوئی غلطی نہیں ہوئی ۔" ہاں! میں یہ بات جانتا ہوں۔" اگر آپ کہیں تو ڈی این اے ملا کر دیکھوں ؟ فوزیہ نے سوال کیا۔ ہاں ضرور ! ہمارے پاس ڈی این اے سیمپل موجود ہے۔ تم تسلی کے لیے ٹیسٹ کرلو ۔ ڈاکٹر عماد کی بات سن کر فوزیہ لیب کے اندرونی حصے میں گئی ۔ وہ ایک کیمیکل لیبارٹری تھی۔ کچھ دیر فوزیہ اپنا کام کرتی رہی اور پھر دھیرے دھیرے چلتے ہوئے ڈاکٹر عماد کے قریب آکر بولی۔ سو فیصد میچ ہوتا ہے۔" ہوں !... مجھے اندازا تھا کہ ڈی این اے میچ ہو جائے گا۔

بتانا تو پڑے گا۔ “ ڈاکٹر عماد کے جواب پر فوزیہ ،شہروز کا نمبر ملانے لگی ۔ جیسے ہی شہروز نے کال اٹھائی ، فوزیہ بولی شہروز ! میں نے ڈھانچے کا چہرہ بنالیا ہے۔ ڈھانچے کا چہرہ ہو بہو تمہارے جیسا ہے۔ میں نے ڈھانچے کا ڈی این اے تمہارے ڈی این اے سے ملا کر بھی دیکھا ہے۔ دونوں ڈی این اے مکمل میچ ہوتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کہ ڈھانچہ تمہارے دادا کا ہے۔ میں فوٹو بھیج رہی ہوں۔“

" کیا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ شہروز نے چلاتے ہوئے کہا۔ اسی لمحے رانیہ نے فائل کا پہلا صفحہ شہروز کے سامنے لہرایا جہاں چالیس سال پہلے اس کے دادا کی گمشدگی کی رپورٹ درج تھی ۔ فائل پر لگی تصویر اور فوزیہ کی بھیجی ہوئی تصویر میں رتی برابر فرق نہیں تھا۔ اور دونوں تصاویر انسپکٹر شہروز ابراہیم کی شکل کی ہو بہو نقل تھیں

Post a Comment

0 Comments

Copyright (c) 2019 husband wife love All Right Reseved